Saturday, 1 October 2022

علم طب میں مسلمانوں کی خدمات



علم طب میں مسلمانوں کی خدمات


مسلمانوں نے علم طب کو اسی طرح ترقی اور عروج بخشا ہے

جس طرح انہوں نے دیگر علوم کو بام عروج تک پہنچایا ہے،

آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں بڑے بڑے طبیب موجود تھے،

جو لوگوں کو طب کی تعلیم دیتے تھے،حارث بن کلدہ ثقفی عرب کے بڑے طبیبوں میں شمار ہوتے ہیں،

انہوں نے فارس کے علاقے جندی شاپور میں طب کی تعلیم حاصل کی تھی،کئی صحابہ کو آپ نے حارث بن کلدہ سے علاج ومعالجہ کا مشورہ دیا تھا،

انہوں نے آپ کے دست حق پر اسلام قبول کرلیا تھا، ضماد بن ثعلبہ الازدی رضی اللہ عنہ  مشہور صحابی ہیں،

آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد اپنے معالج ہونے کا تذکرہ بھی کیا تھا، خود

آپﷺ صلی الله علیہ وسلم روحانی طبیب ہونے کے ساتھ جسمانی طبیب بھی تھے،

آپ صلی الله علیہ وسلم کے طبی ارشادات بڑی اہمیت کے حامل ہیں،

آپ صلی الله علیہ وسلم سے نظری اور عملی دونوں طرح کے علاج مروی ہیں،

احادیث اور سیرت کی کتابوں میں باقاعدہ ”کتاب الطب“ موجود ہے، طب نبویﷺ کے موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں،

جس میں مفردات اور مرکبات سے علاج کی تفصیل موجود ہے، علامہ ابن القیم (751-691ء) کی ”الطب النبویﷺ“ اورجلال الدین سیوطی کی”الطب النبوی للسیوطی“ اس سلسلے میں بصیرت افروزہے۔


اسلام میں طب کی اہمیت کا ا ندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے

کہ اسلامی نظام حکومت کے ابتدائی عہد میں، جب کہ اسلامی حکومت کا کوئی محکمہ اور دفتر نہیں تھا، مسجد نبوی کے صحن میں ایک شفا خانہ موجود تھا اور ایک انصاری خاتون حضرت رفیدہ اس شفاخانہ کی نگراں تھیں، جو بلا عوض خدمت کیا کرتی تھیں، غزوہٴ خندق کے موقعہ پر حضرت سعد بن معاذ زخمی ہوئے تو آپ نے فرمایا، اس کو رفیدہ کے خیمہ میں پہنچا دو، حضرت رفیدہ کے تذکرہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی میں عورتیں بھی فن طب میں خاص مہارت رکھتی تھیں۔ (علوم وفنون عہد عباسی میں ص:108، العلوم العربیہ ص: 302) تاریخ الاسلام للذہبی میں حضرت عروہ بن زبیر کا قول ہے کہ ”میں نے حضرت عائشہ سے بڑا طب میں کوئی عالم نہیں دیکھا“مختلف کتب حدیث میں ہے کہ حضرات صحابیات جنگوں میں زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔


جوں جوں علم کی روشنی بڑھتی اور پھیلتی گئی تمام بڑے بڑے اسلامی مرکزوں میں طبی مدارس اور ہسپتال قائم ہوتے چلے گئے، تقی الدین مقریزی نے لکھا ہے کہ باضابطہ سب سے پہلا شفا خانہ اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے بنایا تھا، جس میں بالخصوص نابیناوٴں اور جذامیوں کا علاج ہوتا تھا اور اطباء کو معقول وظیفہ دیا جاتا تھا۔ (تاریخ بیمارستان فی الاسلام ص: 10)عباسی دور حکومت میں بغداد، دمشق اور قاہرہ میں بڑے بڑے ہسپتال بنائے گئے، اس وقت اہلِ مغرب کی ناواقفیت کا یہ عالم تھا کہ وہ پاگلوں کو لوہے کی زنجیروں میں جکڑتے اور مارتے تھے، جب کہ اہل عرب اپنے ہسپتالوں میں ایسے مریضوں کا باقاعدہ علاج کرتے تھے۔رفتہ رفتہ سینکڑوں طبی کتابیں بھی منظر عام پر آتی چلی گئیں، خلیفہ متوکل کے درباری طبیب علی الطبری نے یونان وہند کے ماخذوں کی مدد سے 850ء میں ایک طبی رسالہ قلمبند کیا، اسی صدی میں ایک دوسرے مصنف احمد الطبری نے سب سے پہلی مرتبہ خارشی کیڑے کی تفصیل پیش کی، مسلمانوں کی بعض طبی تصنیفات کا لاطینی اور دیگر یورپی زبانوں میں ترجمہ ہوا، انہی کتابوں کی مدد سے یورپ نے طبی دنیا میں ترقی کے مراحل طے کیے، اس سلسلہ میں جوستاف لوبون کا کہنا ہے کہ ”عرب موٴلفین کی کتابیں یورپ کی یونیورسٹیوں میں پانچ سو سال تک مطالعہ وتحقیق کا واحد مرجع تھیں۔“ (عربوں کے علمی کارنامے ص:72)


طب سے مسلمانوں کی گہری وابستگی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اموی دور کے آغاز ہی میں جب ترجمہ نگاری کا رواج ہوا اور مختلف علوم وفنون کی کتابوں میں یونانی،عبرانی،سریانی، سنسکرت زبانوں سے عربی قالب میں ڈھالی گئیں تو طب اور فلسفہ کی سب سے زیادہ کتابیں ترجمہ کرائی گئیں، عباسی دور بالخصوص مامون کے عہد میں بے شمار یونانی کتابوں نے عربی کا لباس زیب تن کیا، اس طرح مسلمانوں کی طب سے دلچسپی بڑھنے لگی، آج جویونانی اطباء کی کتابوں میں ان کے اقوال اور ان کے تجربات موجود ہیں وہ سب مسلمانوں کے رہین منت ہیں کہ مسلمانوں نے اس کو عربی جامہ پہنا کر اور اس میں اضافہ وترمیم کر کے اسے زندہ جاوید بنادیا، ورنہ حکمائے یونان کے فلسفے اور طبی کارنامے دفتر گم گشتہ ہوچکے ہوتے،دولت امویہ اور عباسیہ میں بالخصوص بقراط اور جالینوس جیسے یونانی اطباء کی بہت سی کتابوں کے ترجمے ہوئے۔


اسلامی دنیا میں طب کا باقاعدہ آغاز ابو بکر محمد بن زکریا رازی(953-854ء) سے ہوتا ہے، اس نے تمام طبی کتابیں پڑھیں اوراپنے والد کے ساتھ ایک ہسپتال میں طب کا عملی تجربہ بھی کیا، کہتے ہیں کہ اپنی تحریروں اور نوشتوں کی ضخامت میں وہ جالینوس سے بھی سبقت لے گیا تھا،اس نے دو سو سے زائد کتابیں لکھیں، جس میں نصف کتابیں طب پر ہیں، ایڈورڈ۔ جی۔براوٴن نے ان کے متعلق یہ رائے ظاہر کی ہے کہ :


”وہ مسلم اطباء میں سب سے زیادہ عظیم المرتبت گذرا ہے اور اس کا شمار سب سے زیادہ سیر حاصل لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔“ (عربیین میڈیسن، ص: 44،بحوالہ مسلمانوں کے افکار ،ص: 73)


رازی کو تجرباتی طب کا بانی قرار دیا جاتا ہے، وہ اپنے تجربات حیوانات پر کرتا تھا اور اس کے نتائج کو بڑی توجہ سے ایک دفتر میں لکھ لیا کرتا تھا، اس نے سب سے پہلے چیچک اور خسرہ کی علامتیں بیان کیں، رازی بالاتفاق مسلمان اطباء میں قرون وسطیٰ کے عظیم ترین معالج تھے۔


رازی (925-864ء)کے بعد مشہور مسلم اطباء میں ابن سینا (370ھ /980ء- 428ھ/1037ء) کا شمار ہوتا ہے، یہ” الشیخ الرئیس“کے نام سے مشہور تھے، انہوں نے سب سے پہلے دماغ کی جھلی میں ہونے والی سوزش کا صحیح ترین نظریہ پیش کیا، نیز ذات الجنب، گردہ اور مثانہ کی پتھری کی علامتیں بتائیں، دنیا کے تمام طبی کالجز اور یونیورسٹیوں میں سترہویں صدی تک ان کی کتابوں کی تعلیم ضروری تھی، ان کی کتابوں کے ترجمے لاطینی، عبرانی، روسی، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں ہوئے، ابن سینا پہلا مسلم طبیب ہے جس نے نفسیات کو علم طب میں داخل کیا اور یہ واضح کیا کہ انسان کی نفسیاتی کیفیات کا اثر اس کے معدہ پر پڑتا ہے۔


ابن الہیثم(1031-959ء) نے بصریات پر زبردست کام کیا ہے، وہ امراض چشم کا سب سے بڑا طبیب مانا گیا ہے، ابن الہیثم کی علم بصارت پر خدمات کو بنیاد پر بنا کر اہل مغرب نے علم بصارت کو ترقی کی راہ پر گام زن کیا، انہوں نے بتایا کہ آنکھ کا بیرونی حصہ دبیز پردے پر مشتمل ہوتا ہے، جسے صلبیہ کہا جاتا ہے ،اس کے سامنے کا حصہ صاف شفاف ہوتا ہے، اسے قرنیہ کہتے ہیں، روشنی کی کرنیں اسی حصہ سے اندر داخل ہوتی ہیں، علم بصارت کے موضوع پر ابن الہیثم کی مشہور تصنیف ”کتاب المناظر“ایک بڑا کارنامہ ہے، سائنس دانوں اور ڈاکٹروں نے آنکھ اور روشنی سے متعلق بیشتر معلومات اسی کتاب سے حاصل کی ہیں۔


تجرباتی طب کی دنیا میں ایک اہم نام ابو مروان عبد الملک بن عبد العلاء زہر (1162-1091ء) کا ہے ،جسے ابن زہر کے نام سے یاد کیاجاتا ہے، انہوں نے ابن رشد کی فرمائش پر ”التیسیر فی المداوات والتدبیر“ لکھی، جس میں ان بیماریوں اور علاج کا تذکرہ کیا، جس کے بارے میں پہلے کچھ نہیں لکھا گیا تھا، ابن زہر کی اس کتاب کے کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے اور صدیوں تک لوگ اس سے استفادہ کرتے رہے، ابن رشد نے ا سے جالینوس کے بعد سب سے بڑا طبیب کہا ہے۔ (مسلمان اور سائنس 293)


ابن رشد (1198-1126ء)نے بھی طب کی دنیا میں بڑا تحقیقی کام کیا ہے، ان کی مایہ ناز کتاب ”الکلیات فی الطب“ طبی تحقیقات ومعلومات کا انسائیکلوپیڈیا ہے، یہ کتاب کئی سو سال تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں ٹکسٹ بک کے طور پڑھائی جاتی رہی، ابن رشد نے چیچک کے مرض پر بھر پور تحقیق کی اور دنیا کو اس مرض سے نجات کا طریقہ بتایا اور بصریات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ آنکھ کی پتلی کس طرح کام کرتی ہے۔


علی بن عیسیٰ(864ء) نے امراض چشم پر تحقیق کی، اس موضوع پر ان کی مشہور کتاب ”تذکرہ“ہے، جس میں انہوں نے آنکھوں کے ایک سو تیس امراض اور ایک سو سینتالیس دواوٴں کا تذکرہ کیا ہے، یہ کتاب یورپ میں اٹھارہویں صدی تک مستند ماخذ کی حیثیت سے مقبول رہی۔


ابو القاسم عمار موصلی(1005ء) نے بھی آنکھوں کی بیماریوں اور ان کے علاج پر بے مثل کام کیا ہے، ان کی تصنیف ”الکتاب المنتخب فی علاج العین“ امراض چشم پر بیش قیمت تحریر ہے، اس میں انہوں نے آنکھوں کی بیماری اور اس کے علاج پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے موتیا بند کے آپریشن کا ذکر کیا ہے۔


ابن خطیب (1374-1313ء)نے طاعون کے بارے میں ثابت کیا ہے کہ یہ متعدی مرض ہے، جو مریض کے ملبوسات، ظروف اور زیورات سے دوسرے لوگوں تک پہنچتا ہے، بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ خوردبین کی ایجاد سے پہلے مسلم اطباء امراض کے تعدیہ کا سراغ لگا چکے تھے اور یقینی طور پر تعدیہ کے قائل تھے، اسپین کے ابن خطیب نے اس سے آگے بڑھ کر اپنی تحقیق پیش کی کہ طاعون کے مرض سے تعلق رکھنے والا شخص فوراً طاعون کا شکار ہوجاتا ہے۔(مسلمان اور سائنس ص:298)


مسلم اطباء نے طب کے دوسرے میدانوں کی طرح سرجری اور آپریشن کے باب میں بھی گراں قدر کارنامہ انجام دیا ہے، زکریا رازی کی کتاب ”المنصوری“ میں سرجری پر سیر حاصل بحث موجود ہے، اسی طرح ان کی دو اہم تصنیف ”کتاب العمل بالحدید“اور ”مقالة فی الحضی فی الکلی والمثانة“ اس باب میں اہمیت کی حامل ہے، یہ پہلا طبیب ہے جس نے مرہم میں رصاص کے مرکبات کا استعمال کیا، اسی طرح اس سلسلے میں اولیت کا سہرہ اسی کے سر جاتا ہے کہ اس نے جانوروں کی آنتوں سے بنے دھاگوں کو زخم کے سینے میں استعمال کیا، باوجود کہ رازی نے سرجری اور اس کے متعلقات پر تفصیل سے لکھا ہے؛ لیکن اس نے اپنے کیے ہوئے سرجری آپریشنوں کے بارے میں وافر معلومات مہیا نہیں کی ہیں۔


زہراوی(1013-936ء) نے اپنے تجربات کی روشنی میں سرجری کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی ہیں، زہراوی اس سلسلے میں سب آگے ہیں کہ انہوں نے آپریشن کے ذریعہ علاج کو فروغ دیا، زہراوی نے طب اور آپریشن کے سلسلے میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں، جس میں سب سے اہم ”التصریف‘ ہے، علی بن عباس نے بھی سرجری پر بھر پور روشنی ڈالی ہے، اس سرجن نے سب سے پہلے مرقاة(لہو روک آلہ) کا استعمال کیا، یہ ایک ایسا آلہ ہے جس کو سرجری کے وقت خون بہنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ابن سینا نے بھی ”القانون“ میں سرجری کے مختلف مراحل کا تذکرہ کیا ہے۔(عربوں کے علمی کارنامے، ص: 78)


علم ادویہ کے سلسلہ میں بھی مسلمان اطباء نے تحقیقاتی کارنامہ انجام دیا ہے، انہوں نے کافور، صندل، دارچینی اور قرنفل وغیرہ جڑی بوٹیوں کے خواص اور تاثیر معلوم کیے اور انہیں اپنی قرابادین میں شامل کیا، انہوں نے سب سے پہلے دواسازی کی دکانیں اور گشتی بیمار خانے قائم کئے، قید خانوں کا روزانہ طبی معائنہ کرنا اور طبی امتحانات منعقد کرنے کے طریقے سب سے پہلے عربوں نے ہی رائج کیے، چوں کہ مسلمان اعلیٰ درجہ کے ملاح تھے، اس لیے جہاز رانی کے ذریعہ انہیں مختلف ممالک میں پہنچ کر نئی نئی جڑی بوٹیوں کے دریافت کا موقع ملا، چناں چہ انہوں نے طبی دنیا کو ایسی جڑی بوٹیوں سے متعارف کرایا جن سے یونان کے اطباء ناواقف تھے، مسلمان اطباء نے طبی دنیا کو”الکحل“ سے روشناس کرایا، انہوں نے قدیم علم کیمیا کے نظریات پر تنقید کی، اس کے فرسودہ تصورات کو غلط قرار دیا اور جدید علم کیمیا کی بنیاد رکھی، جس کی ابتدا ابو اسحاق یعقوب الکندی نے کی اور جابر بن حیان نے علم کیمیا اور دواسازی کے فن کو بام عروج تک پہنچا دیا، اسی علم کیمیا کی مدد سے انہوں نے نئی نئی داوئیں تیار کیں اور نئے نئے مرکبات دریافت کئے، جابر نے داوٴوں کو قلمانے کا طریقہ ایجاد کیا اور بہت سی دواوٴوں کو قلما کر انہیں نہایت موٴثر اور مفید بنایا، انہوں نے بالوں کو کالا کرنے کے لیے خضاب تیار کیا، جو آج تک استعمال کیا جاتا ہے۔ (سو عظیم مسلم سائنسداں ص:163)


مسلمان اطباء نے یونانی، ایرانی اور قدیم مصری طب سے استفادہ کے ساتھ ہندوستانی طب سے بھی استفادہ کیا، سنسکرت کی بے شمار کتابیں عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں، خصوصاً مامون رشید کے دور میں ہندوستانی طب پر غور وخوض اور نقد وجرح کے بعد ہندوستانی طب کی مفید معلومات کو عربی طب میں شامل کیا گیا، چناں چہ زکریا رازی، بو علی سینا، علی بن عباس، علی بن سہل الطبری کی کتابوں میں ہمیں بہت سی مفید ہندوستانی طبی معلومات ملتی ہیں۔


یہ تمام باتیں اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ مسلمانوں نے تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ علم کے مختلف میدانوں میں فاتحانہ کردار ادا کیا ہے اور علم طب کے ارتقاء میں نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے، انہوں نے خالص علمی اور تجرباتی مطالعہ اور تحقیق کی بدولت جدید طب اور اس سے متعلق تمام علوم پر گہری چھاپ چھوڑی ہے، بلا شبہ اس میدان میں انہیں ہادی اورراہ بر کا مقام حاصل ہے، اس لیے یہ کہنا مبالغہ سے خالی ہے کہ مسلمانوں کے طبی کارنامے نہ ہوتے تو علم طب ترقی کی موجودہ منزل تک ہر گز نہ پہنچ پاتا  

حضرت  

    


    جزاکم اللہ،خیرا

شہزاد شفیق حجامہ سینئر 

0312 2001310 0321 2773576 

No comments:

Post a Comment